تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। عموما الکوحل یا اس جیسی چیز سے انسان کو نشہ چڑھتا ہے اور نشہ کا سیدھا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ انسان کی عقل کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ اور جب عقل ہی زائل ہو جائے تو اعضائے انسانی کا کیا اعتبار رہ جائے گا۔ انسان بولنا کچھ چاہتا ہے بولتا کچھ اور ہے، پیر کہیں رکھتا ہے پڑتا کہیں اور ہے، کرنا کچھ چاہتا ہے ہوتا کچھ اور ہے ۔ المختصر انسان حالت نشہ میں عقل اور عاقلانہ امور سے محروم ہو جاتا ہے۔
اسی لئے دین نے نشہ آور چیزوں کے استعمال سے روکا ہے اورحالت نشہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے کیوں کہ نماز اللہ کی عبادت و بندگی ہے اور عبادت و بندگی بغیر عقل کے ممکن نہیں ، اسی طرح عبادتوں کی جزا جنت ہے اور جنت کے حصول کی شرط عقل سلیم ہے۔ جیسا کہ امیر بیان مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا : عقل جس کے ذریعہ خدائے رحمٰن کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے۔
اکثرسڑکوں اور چوراہوں پر بعض لوگ عجیب و غریب حالت اور عجیب وغریب حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جب کہ ان کا شمار صاحبان حیثیت میں ہوتا ہے جسے دیکھ کر حقیقت سے نا واقف لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ آخر ان کو کیا ہو گیا؟ یا یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ لیکن جو حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ چاہے جتنے بھی صاحب حیثیت کیوں نہ ہوں لیکن چوں کہ یہ نشہ میں ہیں لہذا کوئی تعجب نہیں۔
دین نے ہر نشہ آور چیز سے روکا ہے اور اسے حرام کہا ہے اور اسی طرح ہر اس چیز کو نشہ آور بتایا ہے جس سے انسان اپنے آپے میں نہ رہے، اسکی عقل کام نہ کرے، عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگے اور انسانی اقدار کا اس میں فقدان نظر آنے لگے۔
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو دنیوی نعمتوں سے استفادہ سے قطعا نہیں روکا اور نہ ہی مال وقدرت کے حصول کو ناجائز قرار دیا بلکہ بعض اوقات وسعت کا حکم دیا اور اسے مستحب قرار دیا یعنی انسان اگر حلال راستے سے مال و قدرت کو حاصل کرے اور اسے حلال راہ میں استعمال کرے تو قابل مدح ہے لیکن جس چیز سے اس حکیم پروردگار نے روکا ہے وہ اس کا نشہ ہے کہ انسان مال و قدرت کے حصول کے بعد اپنے آپے میں نہ رہے اور مخلوق کے بجائے خالق اور عبد کے بجائے معبود ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔جیسے فرعون کو جب حکومت ملی تو اپنے آپے میں نہ رہا اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا ، اسی طرح تاریخ میں بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ کچھ نہ تھے تو سب سے بڑے دیندار یہی تھے اور جب اسلام لانے کے سبب مال و دولت ، عزت و وقار ملا تو خود اسلامی تعلیمات کے مخالف اور حقیقی اسلامی رہبروں کے مقابلہ میں دعویٰ رہبری بلکہ قہر وغلبہ سے حاکم بن بیٹھے۔ اور جب قدرت مل گئی تو جس خدا اور دین خدا کے سبب قدرت حاصل کی تھی انہیں کے احکامات پامال کرنے لگے۔ اموی حکام کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قرآن کریم کی تلاوت اور نماز و روزہ کے ذریعہ سماج میں اعتبار قائم کیا لیکن جب اقتدار ملا تو اسی قرآن و نماز کے مخالف ہو گئے، اسی طرح جب اپنی مرضی کے خلاف قرآن کریم سے تفاول کا نتیجہ نکلا تو ولید بن یزید اموی نے اسی قرآن پر تیر برسا دئیے۔ دین اسی دولت و قدرت کے نشہ سے روکتا ہے جو انسان کو قادر مطلق پروردگار سے غافل کر دے۔
صرف دولت و قدرت ہی نہیں بلکہ اگر علم بھی انسان کو انسانیت سے خارج کر دے تو یہ بھی قابل مذمت ہے، اگر چہ قرآن کریم کا پہلا حکم ’’اقرا‘‘ (پڑھو) ہے لیکن قرآن کریم نے جہاں بھی تعلیم کی بات کی ہے اس سے پہلے تزکیہ نفس کی گفتگو کی تا کہ جب انسانی نفس تزکیہ سے آراستہ ہو گا تو علم کا صحیح استعمال کرے گا، گھر، سماج ، ملک و ملت کی اصلاح کرے گا لیکن اگر بغیر تزکیہ و دین کے علم آگیا تو وہ علم صرف اپنے اہل ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک بشریت کے لئے مشکل ایجاد کر دے گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی نسل کے خاتمہ کے لئے جو اسلحے، کیمکل اور بارود بن رہے ہیں وہ سب بے دین اہل علم کی ایجاد ہے جس کا جاہل اور شدت پسند دیندار استعمال کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں اوردہشت گردی کرتے ہیں اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ دو لوگوں نے میری کمر توڑ دی ایک بے دین اہل علم ہیں اور دوسرے جاہل و شدت پشند دیندار۔ ‘‘ تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں ہیں جیسے قاضی شریح و قاضی شریک وغیرہ
اسی طرح مدح و تعریف کا نشہ بھی انسان کو تباہی اور بربادی کے راستے پر لگا دیتا ہےاس کا سب سے زیادہ فائدہ چاپلوس اٹھاتے ہیں کیوں کہ چاپلوسی ایسا نسخہ ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا اور جسکی تعریف کی جاتی ہے وہ اپنی تمام تر عقل و شعور سے ہٹ کر خوش ہوجاتا ہے اور جب دوسرے دیکھتے ہیں کہ یہ اپنی تعریف کا دیوانہ ہے تو وہ بھی اپنے حصول مقصد کے لئے یہی نسخہ استعمال کرتے ہیں۔
ہر انسان اپنی حقیقت پہچانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے لیکن کتنا حیرت خیز ہے کہ جب کوئی دوسرا اسکی تعریفیں کرتا ہے اپنے یقین کے بجائے دوسرے کے گمان پر اعتبار کر لیتا ہے۔
اسی طرح جوانی کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے اور انسان یہ جاننے کے باوجود کہ یہ جوانی گذرنے والی ہے اس کا غلط استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف دین نے جوانی کو ایک نعمت بتایا اور اسکے صحیح استعمال کا حکم دیا اور جوانی کی بندگی کو ضعیفی کی عبادت پر فوقیت دی۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا : ’’ینبغی للعاقل ان یحترس من سکر المال و سکرالقدرۃ و سکر العلم و سکرالمدح و سکر الشباب فان لکل ذلک ریحا خبیثۃ تسلب العقل و تستخف الوقار۔
عقلمند انسان کے لئے بہتر ہے کہ وہ مال، قدرت، علم، تعریف اور جوانی کے نشہ سے پرہیز کرے کیوں یہ تمام چیزیں ایسی بدبودار ہوا ہیں جو عقل کو سلب اور عزت و وقار کو ختم کر دیتی ہیں۔